عدالتی احکامات اور کراچی انتظامیہ

خبر ہونے تک

عدالت عظمٰی نے کراچی سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران جو احکامات اورریمارکس دئیے اس سے کراچی کی موجودہ حالت کی آئینے کی طرح عکاسی ہوتی ہے، کراچی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی عملی مثال بنا ہوا ہے، حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ نظر یہ آتا ہے کہ حکومتی ذمہ داران ہی اس حالت کے ذمہ دار ہیں۔ زمینوں پر قبضے،ناجائز تعمیرات کی بھرمار نے راستوں حتٰی کہ بڑی،مرکزی شاہراہوں اور سنگنل فری ایکسپریس ویز کو بھی تنگ کردیا ہے۔ کراچی کے لوگ آرام سے سفر تک نہیں کرسکتے، سستے سفر کا تو تصور ہی نہیں، سرکلر ٹرین تو بڑی بات کراچی سے بسیں تک غائب کردی گئیں۔ انکروچمنٹ اور چھوٹی سواریوں کے باعث کراچی کاسمو پولیٹن شہر کے بجائے دنیا کی سب سے بڑی یعنی تین کروڑ کے نفوس کی کچّی آبادی کا منظر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دو سال سے کراچی کے لیے پانچ سو بسیں چلانے کے دعوٰے کیے جارہے ہیں، وزراء ٹرانسپورٹ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر آئیندہ دو تین ماہ میں بسیں سڑکوں پر لانے کا اعلان کرتے رہے ہیں، سالوں گزر گئے،  دعوٰے کرنے والوں کو کوئی شرم نہیں آئی۔ آبادی کا دباؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اس سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی حکمرانوں کے پاس نہیں۔پولیس کی نگرانی میں کچی آبادیاں قائم اور ان میں تعمیرات معمول بن گیا ہے، سیاست داں اپنے ووٹ بنک کے چکر میں انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ عدالت عظمٰی کے حکم اور ریمارکس کے بعد حکمرانوں کے پاس حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں اور پولیس کے پاس قبضہ مافیا کو جیل بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں،کیا ایسا ہوگا ایک بڑا سوال ہے؟

عدالت عظمٰی نے چالیس سال پہلے والے کراچی کو بحال کرنے حکم دیا تھا، چالیس سال پہلے کراچی ایک مثالی شہر تھا جہاں راتیں جاگا کرتی تھیں اور دن معاشی سرگرمیوں میں میں صرف ہوتا تھا، ترقی کا پہیہ آگے کی جانب دوڑ رہا تھا، غیر ملکی ظاقتوں نے ایک سازش کے تحت مقامی ملک دشمنوں کے ساتھ مل کر اسے تباہی سے دوچار کردیا۔ کراچی پاکستان کا وہ انجن ہے جس کی رفتار پاکستان کی رفتار ہوتی ہے، کراچی ملک کا بیورومیٹر رہا ہے، جب کراچی ترقی کرتا تھا تو پورا ملک ترقی کرتا تھا، کراچی کی معاشی سرگرمیاں ملکی معیشت کو مستحکم کرتی تھیں، ملک بھر کے لوگ تلاش معاش میں کراچی آتے تھے، تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلانے میں آگے آگے تھے، علم کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے قیادت بھی پیدا کررہے تھے۔ اسی طرح تعلیم کے لیے طلبا ملک کے کونے کونے سے کراچی آتے تھے، ملک بھر کے اہل علم و دانش،ادیب و شاعر کی پزیرائی جو کراچی کرتا تھا اس کی مثال نہیں ملتی، مزدور،صنعت کار،تاجر سب کراچی کی گود میں سکون لیتے تھے حتٰی کہ سیاست بھی کراچی کے سوا کہیں نہیں پھل پھول سکتی تھی۔

غرض جتنا متحرک اور موثرکراچی اور اس کے لوگ تھے آج وہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ پورے ملک کے لیے ذریعہ روزگار بننے والا شہر آج خود روزگار کی تلاش میں ہے، آٹا چینی پھل سبزی مافیا نے عوام کے منہہ سے نوالہ چھین لیا ہے، تعلیم دینے والا تعلیم کے لیے ترس رہا ہے، علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے والے شہر کے لوگ دواؤں کو ترستے ہیں، وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتیں اور اس میں شامل لوگ اپنی جیبیں بھرنے کی مہارت رکھتے ہیں، شہر کی حالت سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ آج کراچی شہر جس بد حالی کا شکار ہے اس کا عکس پورے ملک میں نظرآتاہے۔ جب انجن ہی ناکارہ بنادیا جائے تو گاڑی کیا خاک چلے گی۔

گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے سیاسی جماعتیں اور بدلتی حکومتیں کراچی شہر کی بربادی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی آرہی ہیں لیکن مداوا کرنے میں کوئی پہل نہیں کررہا، دوسروں پرالزامات لگا کر اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں، عدالت عظمٰی نے کھل کر ایک ایک بات کی نشاندہی کی ہے۔ قبضے ختم کرانا،ناجائز تعمیرات روکنا،ناجائز تجاوزات کو ہٹانا اور غیر قانونی تعمیرات ڈھانا حکومتوں کا کام ہے لیکن یہ کام عدالتوں کو کرنا پڑ رہے ہیں، بعض مواقعوں پر تو حکومت نے عدالت کو گمراہ کرنے کی بھی کوشش کی مگر عدالت کے باعلم ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوسکی، عدالت عظمٰی کراچی کے مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اس کی وجوہات اور ذمہ داران کا بھی تعین کرچکی ہے، اس کے حل کے حوالے سے بار ہا واضح ہدایات دے چکی ہے اور راستے بھی بتا چکی ہے لیکن حکومت اس پر عمل کرنے میں ناکام رہی۔ ایک کان سے سنا دوسرے سے نکال دیا کے مصداق حکومتی اہلکار اپنا وقت پورا کرنے میں مصروف رہتے ہیں، اگلی پیشی پر کوئی بہانا تراش لینا ان کی روایت بن گیا ہے، کراچی کے مقدمات سے متعلق حالیہ سماعت میں حکومتی رویے نے عدالت کو یہ تک کہنے پر مجبور کردیا کہ شہر کا کوئی پرسان حال نہیں، پوچھیں تو کس سے، بلائیں تو کس کو، کوئی حکومت کام ہی نہیں کرنا چاہتی۔ چیف جسٹس جسٹس گلزاراحمد کا یہ کہنا کہ ایکشن لیا توسب فارغ ہوجائیں گے، یہ ایک انتہا ہے اس کے بعد کچھ نہیں۔ وفاقی حکومت،صوبائی حکومت، شہری حکومت،ڈی ایچ اے،کینٹونمنٹ،ریلوے،پی آئی اے،کے پی ٹی غرض کونسا ادارہ بچا ہے جو کہہ سکے اس نے کام بہتر انداز میں کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے بہت ہی واضح انداز میں ناجائز قبضے ختم کرنے،تجاوزات ہٹانے،غیر قانونی تعمیرات ڈھانے کا حکم دیا ہے لیکن کیا انتظامیہ ایسا کر پائے گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ عدالتوں کے حکم امتناع کے دوران کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کرلی گئیں، اب بھی خدشات بہت سے موجود ہیں کہ عوامی مفاد کامعاملہ سامنے لایا جاسکتا ہے،انتظامیہ ایسے اقدامات کر سکتی جس سے بے گنا لوگ لپیٹ میں آئیں پھر ان کی آڑ میں کارروائی معطل کردی جائے جیسے بعض علاقوں میں پتھارے ہٹادئیے گئے ہیں لیکن سڑک اب بھی خالی نہیں ہوئی، پتھاروں کی جگہیں رکشہ،کار اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ بنادی گئی ہے۔

یہ بھی گفتگو ہورہی ہے کہ صوبائی حکومت اور بعض بااثر سیاست دانوں کے کہنے پرانتظامیہ بعض بستیوں کو مسمار کرنے کی ایک عرصے سے کوشش کررہی ہے تاکہ اسے بلڈرز مافیا کو الاٹ کرکے اربوں کھربوں روپے کمائے، عدالتی حکم کی آڑ میں وہ اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرے گی۔ لگتا ہے ہماری حکومتیں،انتظامیہ اور پولیس بھی احکامات پروف ہوچکی ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز